- متْن (اردو ریسرچ جرنل), Vol # 1, Issue # 1
- غالبیات کا ایک معتبر حوالہ: شمس الرحمٰن فاروقی
غالبیات کا ایک معتبر حوالہ: شمس الرحمٰن فاروقی
- Muhammad Yousuf/
- June 30, 2020
An authoritative reference to Ghalibiat: Shams-ur-Rahman Farooqi
Keywords
Shamsur Rehman Farooqi is a renowned critic and researcher. He has a unique approach about modern and ancient Urdu literature. Though his specialty is ‘Meeriat' (the study about Meer Taqi Meer), he has also been writing about Ghalib for a long time. In his magazine ‘Shab Khoon' he has published selected annotation of ‘Deewane Ghalib' episodically. After that it was named ‘Tafheeme Ghalib' which earned acclamations from Ghalib's adorers. In this article, Farooqi's all research works, except ‘Tafheeme Ghalib' have been analyzed in depth. They include ‘Ghalib ke Chand Pehloo', ‘Ghalib per Chaar Tehreeren' and ‘Intakhabe Kulliate Ghalib'. During the analysis other origins have also been utilized to derive benefit where needed.
۱۔ تفہیم ِغالب کے عنوان سے غالب کے منتخب اشعار کی شرح سلسلہ وار اپریل ۱۹۶۸ءکے شمارہ نمبر ۲۳ سے شروع ہوئی، کچھ تعطل کے ساتھ بیس سال کے عرصہ تک جاری رہی، آخری بار ”شب خون“ کے شمارہ نمبر ۱۵۱، ستمبر نومبر ۱۹۸۸ءمیں شائع ہوئی۔ بعد ازاں ۱۹۸۹ءمیں مربوط کتاب کی صورت میں یہ شرح تفہیمِ غالب ہی کے نام سے پہلی بار ۱۹۸۹ءمیں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ ”شب خون“ والی قسط وار شرح کو نظر ثانی کے بعد ”تفہیمِ غالب“ کے نام سے شائع کیا گیا۔ نظر ثانی میں لفظاً اور معناً کئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۵ءمیں آیا جس میں چند اشعار کے اضافے سے تشریح شدہ اشعار کی تعداد ڈیڑھ سو ہو گئی۔ تیسری اشاعت اسی ہی ادارے سے ۲۰۱۴ءکو عمل میں آئی۔ پاکستان سے بھی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
۲۔ ریحانہ اختر، شمس الرحمن فاروقی اور تفہیمِ غالب، (نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۱۰ء)، ص۱۰۷۔
۳۔ فاروقی، شمس الرحمن، تفہیمِ غالب،( نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۱۴ء)، ص۴۔
۴۔ نظم طباطبائی، علی حیدر، سید، شرح دیوان غالب، (جہلم: بک کارنر،۲۰۱۳ء)، ص۷۴۔
۵۔ فاروقی، شمس الرحمن، تفہیم غالب، ص۲۵۔
۶۔ ایضاً، ص۱۵۔
۷۔ ایضاً، ص۶۹۔
۸۔ ایضاً، ص۱۶۵۔
۹۔ مراعاة النظیر کو تناسب اور توفیق بھی کہتے ہیں، اس میں دورانِ کلام ایسی چیزوں کاذکر کیا جاتا ہے، جن میں باہم نسبت ہو، مگر یہ نسبت تقابل یا تضاد کی نہیں ہونی چاہیے، یہ متناسب چیزیں کبھی دو ہوتی ہیں، کبھی دو سے زیادہ۔
.i عابدعلی عابد، سید، البدیع، (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء)، ص۱۲۲: ۱۲۳۔
۱۰۔ ضلع کے معنی ہیں پہلو۔ زبان کی اصطلاح میں ضلع سے مراد ہے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن کا آپس میں معنوی ربط ہو، وہ ربط کلام کے معنی پر دلالت نہ کرتا ہو۔۔۔ ضلع کا استعمال چونکہ کلام میں ایک نئی طرح کا تناؤ پیدا کرنا ہے۔ اس لیے ضلع ہمیشہ کلام میں حُسن اور لطف پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
.iشمس الرحمن فاروقی اور تفہیم غالب
۱۱۔ فاروقی، شمس الرحمن، تفہیم غالب، ص۲۲۴۔
۱۲۔ ایضاً، ص۱۹۔
۱۳۔ ایضاً، ص۵۷۔
۱۴۔ ایضاً، ص۵۰۔
۱۵۔ فاروقی، شمس الرحمن، شعر شور انگیز، (نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، جلد اوّل،۲۰۰۶ء)، ص۲۸،۴۲۔
ٍ۱۶۔ مزید تفصیل اور مطالعے کے لیے ”شعر شور انگیز“شمس الرحمن فاروقی، شائع شدہ، کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی، جلد نمبر۱،۲،۳،۴ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۷۔ فاروقی، شمس الرحمن، شعر شور انگیز، ص۴۲۔
۱۔ فاروقی، شمس الرحمن، تفہیم غالب، ص۲۶۔
۱۹۔ ایضاً، ص۸۰۲۔
۲۰۔ شمس الرحمن فاروقی کی تفہیم غالب، ص۷۔
۲۱۔ ایضاً، ص۷۔
۲۲۔ یہ مجموعہ ۲۰۰۱ءکو انجمن ترقی اُردو کراچی سے شائع ہوا۔ تمام مضامین پرانے ہیں جو تقریباً ۱۹۸۴ءسے ۱۹۹۸ءکے درمیانی عرصے میں لکھے گئے جو دیگر رسائل یا مجموعوں میں شامل ہیں۔ مجموعی صورت میں فاضل مصنف نے نظر ثانی کے بعد اکیسویں صدی کے اوائل میں پیش کیا ہے۔
۲۳۔ فاروقی، شمس الرحمن ،غالب کے چند پہلو، (کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، س ن)، ص۷۔
۲۴۔ ایضاً، ص۴۔
۲۵۔ اس مجموعہ میں شامل یہ مضمون ’غالب زمانہ حال کا مقبول ترین شاعر‘ دیباچہ انتخاب غالب (اُردو)، (۱۹۹۳ء) کا حصہ دوم ہے جو انتخابِ کلیاتِ غالب (اُردو) کے دیباچے کے طور پر شامل ہے۔ اس مجموعے میں ضمنی سرخیاں ’نو آبادیاتی ذہن اور تہذیبی بحران‘، ’ذہنی جغرافیے اور رسوم میں تبدیلی‘ اور ’کلامِ غالب اور نئی نشانیات‘ بنائی گئی ہیں۔ اندرونی متن تقریباً وہی ہے۔ مکمل دیباچہ ’غالب پر چار تحریریں‘ نامی مجموعہ میں بغیر نام اور ذیلی سرخیوں کے شامل کیا گیا ہے۔
۲۶۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب کے چند پہلو، ص۱۳، ۱۴۔
۲۷۔ ایضاً، ص۱۴،۱۵۔
۲۸۔ ایضاً، ص۱۶۔
۲۹۔ ایضاً، ص۱۹۔
۳۰۔ گوپی چند نارنگ نے غالب کا مطالعہ بیدل کے زیر اثر کیا ہے۔اُنھوں نے ابتدائی دَور سے آخر تک کے کلام کے تجزیے سے ثابت کیا ہے کہ غالب نے ابتداً نا صرف بیدل کا اثر لیا بلکہ یہ اثر آخر وقت تک قائم رہا۔
۳۱۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب کے چند پہلو، ص۲۷۔
۲۳۔ یہ مضمون ”۱۹۹۶ء“ میں تصنیف ہوا۔ غالب کے چند پہلو کے علاوہ غالب پر چار تحریریں مجموعہ میں بھی یہ مضمون شامل ہے۔
۳۳۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب پر چار تحریریں، (نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۰۱ء)، ص۷۰۲۔
۳۴۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب کے چند پہلو، ص۳۷۔
۳۵۔ ایضاً، ص۴۴۔
۳۶۔ ایضاً، ص۴۷۔
۳۷۔ ایضاً، ص۵۰۔
۳۸۔ یہ دیباچہ نما مضمون ”۱۹۸۴ء“ میں لکھا گیا ۔ ”علی جواد زیدی“ کی مرتبہ کتاب مالک رام ایک مطالعہ مطبوعہ ”۱۹۸۶ء“ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی میں شامل ہے۔ ۲۰۰۰ءاور ۲۰۰۱ءمیں نظر ثانی کے بعد ”غالب کے چند پہلو“ اور ”غالب پر چار تحریریں“ میں شامل ہے۔
۳۹۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب پر چار تحریریں، ص۷۔
۴۰۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب کے چند پہلو، ص۶۰
۴ٍ۱۔ ایضاً، ص۶۷۔
۴۲۔ یہ افسانہ سب سے پہلے شب خون کے رسالہ: اکتوبر ۱۹۹۸ءکے شمارہ نمبر ۲۲۰ کے صفحہ ۷ پر شائع ہوا۔ بعد ازاں ان کے مجموعے سوار اور دوسرے افسانے“ میں شامل کیا گیا۔ بعد ازاں ”غالب کے چند پہلو“ میں بھی شامل ہے۔
۴۳۔ فاروقی، شمس الرحمن، سوار اور دوسرے افسانے، (الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ۲۰۰۳ء)، ص۲۱۔
۴۴۔ فاروقی صاحب نے ستمبر ۱۹۹۸ءکا شمارہ لکھا ہے جس میں غالبیات کا مواد شامل کرنا چاہتے تھے مگر یہاں فاروقی سے سہو ہوا ہے۔ اکتوبر ۱۹۹۸ءکا شمارہ نمبر ۲۲۰ ہے جس میں یہ گوشہ شامل ہے۔
۴۵۔ فاروقی، شمس الرحمن، سوار اور دوسرے افسانے، ص۲۰۔
۴۶۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب کے چند پہلو، ص۸۲۔
۴۷۔ ایضاً، ص۸۶۔
۴۸۔ ایضاً، ص۹۲۔
۴۹۔ غالب پر مشتمل چار مضامین کا یہ مجموعہ ۲۰۰۱ءمیں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے شائع ہوا۔ اس میں دو مضامین ”مطالعات غالب، سبکِ ہندی اور پیروی مغربی“ اور ”سوانح غالب کا ایک پہلو مالک رام“ پہلے سے ”غالب کے چند پہلو“ میں شامل ہیں۔ ”غالب کے چند پہلو“ اور ”غالب پر چار تحریریں“ دونوں غالبیات کے یہ مجموعے ۲۰۰۱ءمیں شائع ہوئے مگر ”غالب کے چند پہلو“ کو ایک طرح سے اوّلیت حاصل ہے کہ اس کا دیباچہ (۱۱اکتوبر،۲۰۰۰ءکا تحریر کردہ ہے جبکہ ”غالب پر چار تحریریں“ کا دیباچہ (۹مارچ ۲۰۰۱ء) کا تحریر شدہ ہے۔
۵۰۔ وہی مضامین زیرِ بحث آئیں گے جو پیچھے شامل نہ تھے۔
۵۱۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب پر چار تحریریں، ص۸۔
۵۲۔ ”انتخاب (اُردو کلیات غالب) مع دیباچہ“ ۱۹۹۳ءمیں ساہتیہ اکادمی دہلی سے شائع ہوا۔ فاضل مصنف نے ”۱۹۹۱ء“ میں اس انتخاب کے لیے ”دیباچہ“ تحریر کیا تھا۔ جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ جسے بعد ازاں ”دیباچہ انتخاب کلیات غالب (اُردو)“ کے نام سے ”غالب پر چار تحریریں“ میں شامل کیا گیا ہے۔ دیباچے کے علاوہ یہ انتخاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل جسے ”نوائے سروش“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں ”متداول“ کلام میں سے انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ حصہ دوم ”گنجینہ ٔمعنی“ سے موسوم ہے جس میں ”غیر متداول“ کلام میں سے انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ حصہ سوم ”باد آورد“ کے نام سے ہے جس میں نو دریافت کلام کا انتخاب شامل ہے۔ جبکہ آخری حصہ ”یادگارِ نالہ“ میں غیر مجتمع اور بکھرے ہوئے کلام غالب کو جمع کرکے شامل کیا گیا ہے۔
۵۳۔ ۲۰۱۳ءمیں غالب پر شہرہ آفاق تصنیف ”غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات“ سامنے آئی ہے۔ جس نے غالبیات کی دُنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ وہ غالب جسے اپنے تورانی الاصل ہونے پر فخر تھا، اور ہر غالب شناس نے غالب کو مغربی یا فارسی شعریات کی روشنی میں پرکھا، مگر ان سب سے ہٹ کر نارنگ کا غالب ہندی الاصل ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے قائم غالب کے نسلی تفاخر کے بت کو نارنگ نے آن کی آن زمین بوس کر دیا ہے۔ نارنگ کا غالب نرالا ، منفرد اور دیگر غالب شناسوں کے غالب سے زیادہ خوب صورت ہے۔
۵۴۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب پر چار تحریریں، ص۵۶۔
۵۵۔ دوسرا حصہ ”غالب کے چند پہلو“ میں پہلے مضمون کے طور پر شامل ہے جس کا عنوان ہے ”غالب زمانہ حال کا مقبول ترین شاعر“۔ یہ مضمون پہلے سے زیرِ بحث آچکا ہے۔
۵۶۔ یہ خطبہ ۲۲فروری ۲۰۰۱ءکو غالب اکیڈمی نئی دہلی میں پیش کیا گیا۔ ”غالب پر چار تحریریں“ کے علاوہ یہ مضمون ”اُردو غزل کے اہم موڑ“ میں بھی شامل ہے۔
۵۷۔ پہلا خطبہ ۲۷جولائی ۱۹۹۶ءمیں غالب اکیڈمی میں پیش کیا، جو اسی ادارے سے ”اُردو غزل کے اہم موڑ“ کے نام سے ۱۹۹۷ءکو شائع ہوا۔
۵۸۔ فاروقی، شمس الرحمن، غالب پر چار تحریریں، ص۸۔
۵۹۔ فاروقی، شمس الرحمن، اُردو غزل کے اہم موڑ، (نئی دہلی: غالب اکیڈمی، ۲۰۱۵ء)، ص۱۲۸۔
۶۰۔ ایضاً، ص۱۲۹۔
۶۱۔ ایضاً، ص۱۴۵۔
۶۲۔ ایضاً، ص۱۴۸۔
۶۳۔ ایضاً، ص۱۸۵۔
۶۴۔ یہ مضمون ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”صورت معنی و سخن“ میں شامل ہے یہ مجموعہ ۲۰۱۰ءمیں ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی سے شائع ہوا۔اِس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۱ءمیں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے بھی شائع ہو چکا ہے۔
۶۵۔ فاروقی، شمس الرحمن، صورت معنی و سخن، (نئی دہلی: ایم آر پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء)، ص۱۷۶۔
۶۶۔ ایضاً، ص۱۷۸
۶۷۔ شعر، غیر شعر اور نثر، شمس الرحمن فاروقی کے مقالات کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار ۱۹۷۳ءدوسری مرتبہ ۱۹۹۸ءکو الٰہ آباد سے جب کہ تیسری مرتبہ اس مجموعہ کا تصحیح شدہ ایڈیشن قومی کونسل نئی دہلی سے ۲۰۰۸ءمیں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ تصحیح و اضافہ شدہ پاکستانی ایڈیشن ۲۰۱۴ءمیں پورب اکادمی سے منظر عام پر آیا، زیر نظر پاکستانی ایڈیشن ہے جس میں ۲۸مقالہ جات شامل ہیں۔
۶۸۔ فاروقی، شمس الرحمن، شعر، غیر شعر اور نثر، (اسلام آباد: پورب اکادمی، اپریل۲۰۱۴ ء)ص ۲:۴۔
۶۹۔ ایضاً ، ص ۴۱۴۔
۷۰۔ ایضاً ، ص ۴۱۸۔
۷۱۔ ایضاً ، ص ۴۱۹۔
۷۲۔ ایضاً ، ص ۴۲۳۔
۷۳۔ ایضاً ، ص ۴۲۴۔
۷۴۔ صفدر رشید، شعر، شعریات اور فکشن: شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا مطالعہ، (لاہور :مجلس ترقی ادب، فروری ۲۰۱۹ء) ص۲۸۷۔
۷۵۔ فاروقی، شمس الرحمن، شعر، غیر شعر اور نثر ، ص۴۳۶۔
۷۶۔ فاروقی نے اس غزل کے مقطع کی قرأت شعر ، غیر شعر اور نثر کے صفحہ ۴۴۴ پر غلط نقل کی ہے۔ پہلے مصرعہ میں:
”حسن و فروع شمع سخن دور ہے اسد“
حسن کے بعد”واؤ“ اصنافی ہے۔
۷۷۔ شعر، غیر شعر اور نثر، ص۴۴۶۔
۷۸۔ عتیق اللہ، پروفیسر، اُردو تنقید کا ارتقاء، مشمولہ: تنقید کی جمالیات: مشرقی اور اُردو تنقید کا ارتقاء، (لاہور: بک ٹاک، جلد ۳، ۲۰۱۸ء)، ص ۴۳۔
ماخذات:
۱۔ ریحانہ اختر، شمس الرحمن فاروقی اور تفہیمِ غالب، نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاﺅس، ۲۰۱۰ء۔
۲۔ زیدی، علی جواد، مالک رام ایک مطالعہ، نئی دہلی: مکتبہ جامع لمٹیڈ، جولائی ۱۹۸۶۔
۳۔ صفدر رشید، شعر، شعریات اور فکشن: شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا مطالعہ، لاہور :مجلس ترقی ادب، فروری ۲۰۱۹ء۔
۴۔ عتیق اللہ، پروفیسر، اُردو تنقید کا ارتقاء، لاہور: بک ٹاک، جلد ۳، ۲۰۱۸ء
۵۔ عابدعلی عابد، سید، البدیع، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء۔
۶۔ فاروقی، شمس الرحمٰن،(مرتب) انتخابِ اردو کلیاتِ غالب، نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی، ۱۹۹۳ء۔
۷۔ ________،غالب کے چند پہلو، کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، س ن۔
۸۔ ________، غالب پر چار تحریریں، نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۰۱ء۔
۹۔ ________،سوار اور دوسرے افسانے، الٰہ آباد: شب خون کتاب گھر، ۲۰۰۳ء۔
۱۰۔ ________، شعر شور انگیز، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، جلد اوّل،۲۰۰۶ء۔
۱۱۔ ________، صورت معنی و سخن، نئی دہلی: ایم آر پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء۔
۱۲۔ ________، تفہیمِ غالب، نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۱۴ء۔
۱۳۔ ________، شعر، غیر شعر اور نثر، اسلام آباد: پورب اکادمی، اپریل۲۰۱۴ ء۔
۱۴۔ ________، اُردو غزل کے اہم موڑ، نئی دہلی: غالب اکیڈمی، ۲۰۱۵ء۔
۱۵۔ نظم طباطبائی، علی حیدر، سید، شرح دیوان غالب، جہلم: بک کارنر،۲۰۱۳ء۔
۱۶۔ نارنگ، گوپی چند، ڈاکٹر، غالب: معنی آفرینی جدلیاتی وضع شونیتا اور شعریات، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۳ء۔
رسالہ:
فاروقی، شمس الرحمٰن (مدیر)، شب خون، الہ آباد، شمارہ ۲۳تا ۱۵۱۔
Statistics
Author(s):
Details:
Type: | Article |
Volume: | 1 |
Issue: | 1 |
Language: | Urdu |
Id: | 5f1fd1ef5c19b |
Pages | 176 - 221 |
Published | June 30, 2020 |
Statistics
|
---|
Copyrights
MATAN (متْن), Department of Urdu, IUB. |
---|
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.